|
بلوچا
فروری 2002 میں NMC انٹرپرائزر کراچی کیسٹ کمپنی نے لالہ عیسی خیلوی کا ایک شاہکار البم ریلیز کیا۔ البم نمبر 155 تھا اور یہ لالہ جی کے کیسٹ ریلیز کرنے والی ایک نئی کمپنی تھی۔ یہ ایک منفرد البم تھا جس میں کیسٹ کی سائیڈ اے پہ افضل عاجز، اعجاز تشنہ، مجبور عیسی خیلوی اور مصورِ غم ملک سونا خان بےوس کی لازوال شاعری پہ مزین چار شاہکار گیت تھے جبکہ کیسٹ کی دوسری سائیڈ پہ قاضی خالد کے لکھے گیت کی استھائی کیساتھ محمود احمد ہاشمی، تنویر شاہد، مظہر نیازی، منشی منظور، شاکر شجاع آبادی، ملک سونا خان بےوس، ملک آڈھا خان، عبدالرزاق شاہین، خوشدل کریم اور نیاز طلب کے دوہڑے گائے۔ مزید اس میں محمود احمد ہاشمی کے کچھ دوہڑے ان کے بھائی مسعود ہاشمی اور کچھ احباب ”روفی” کمپوزر طاہر ساقی نوازش علی خان نیازی (لالہ کے عزیز) کا نام لیکر گائے تھے۔ دوہڑوں کا یہ انداز پہلے سے بہت مختلف اور منفرد تھا۔ یاد رہے کہ ”آکھے واہ بلوچا“ 1996ء میں عطا محمد داٶد خیلوی نے پہلے گایا تھا۔
گیتوں کی کمپوزیشن استاد امیر حسین، شبیر شاکر، افضل عاجز اور اعجاز تشنہ نے کی۔ اعجاز تشنہ مرحوم شاعر کیساتھ کمپوزر بھی تھے جو شفاءاللہ روکھڑی کے ساتھ منسلک رہے اور ان کے لاتعداد گیت کمپوز کیے، اکثر سٹیج پہ وہ شفاءاللہ روکھڑی کے ہمراہ ہوتے تھے۔ اللہ انہیں اور شفاءاللہ روکھڑی کو غریق رحمت فرماۓ۔ آمین
میوزک ارینجر موسیقار صابر علی تھے، اس البم کی ریکارڈنگ عیسی خیلوی سٹوڈیو لاہور میں ہوئی۔ ریکارڈسٹ شہزاد چوہدری اور کاشف علی تھے۔ شہزاد چوہدری ایک اچھے ریکارڈسٹ تھے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ کاشف علی ایک مایہ ناز ریکارڈسٹ تھے جو میٶزیشنز اور گلوکار کی آواز کو کلئیر ٹریک اور ساٶنڈ ایکولائزر سسٹم کو متوازن رکھ کر اپنی فنی مہارت سے ریکارڈ کیا کرتے تھے، جس میں کبھی میوزک اور گلوکار کی آواز میں اتار چڑھاٶ نہیں ہوتا تھا۔ وہ جب تک مطمئن نہیں ہوتے گلوکار اور تمام میٶزیشنز کو اوکے نہیں کرتے تھے۔
لالہ جی کے ہیرا کمپنی کے بیشتر البم کاشف علی نے ہی ریکارڈ کیے تھے۔ مایہ ناز ریکارڈسٹ محمود صاحب (آرجی ایچ + سونک + ایگل+ شالیمار) کے بعد کاشف علی نے جو بھی لالہ کے البم کی ریکارڈنگ کی وہ ان کی فنی مہارت کا ثبوت ہے۔
اس البم میں خصوصی معاونت لیاقت علی نے کی تھی۔ لالہ لیاقت کا تعارف اس البم کے حوالے سے لازمی سمجھونگا۔ جب یہ البم ریلیز ہوا تو ابتداء میں کیسٹ کور پہ دو گیتوں ”آ گل لگ ملوں آخری وار” اور “تیڈے کول حسرتاں دی بارات گِھن کے آۓ“ کے شعراء کرام کا نام اُلٹ لکھا گیا۔ آ گل لگ ملوں کے ابتداء میں دوہڑہ تو ملک سونا خان بےوس کا تھا لیکن گیت مجبور عیسی خیلوی کا لکھا تھا۔ غلطی سے شاعر کا نام بھی ملک سونا خان بےوس لکھ دیا گیا اور ”تیڈے کول حسرتاں دی بارات“ کے شاعر ملک سونا خان بےوس تھے اور اس گیت کے ساتھ مجبور صاحب کا نام لکھ دیا گیا۔ پہلی بار یہ دونوں گیت سننے کے بعد شعراء کی غلطی شاید میں نے ہی پکڑی ہو۔
کیونکہ ”تیڈے کول حسرتاں دی بارات گھن کے آئے” میں مصورِ غم کا قلم صاف بولتا تھا۔
سسکیاں تے آہیں، عبرت بھرے فسانے، ڈکھی دل دیاں صدانواں، گلشن دے اُجڑے پُجڑے۔
پچھلے بیس سال سے لالہ کو سنتے سنتے مجھے تھوڑا بہت اندازہ تو ہوچکا تھا کہ لالہ نے جو بھی بےوس، مجبور یا فاروق روکھڑی یا سر منور علی ملک کا کلام گایا ہے تو نوے فیصد یہ شاعری اور یہ سارے درد میں ڈوبے الفاظ ملک سونا خان بےوس کے قلم سے نکلے ہوئے آنسو ہیں۔ اس کی نشاندھی میں نے لالہ لیاقت کو کروائی جنہوں نے بعد ازاں اس غلطی کی کیسٹ کور پہ اصلاح کروائی تھی۔
لالہ لیاقت علی کی اس زمانے میں لاری اڈہ میانوالی بس سٹینڈ پہ وتہ خیل کیسٹ ہاٶس تھا۔ میرا سن 2000ء سے 2004ء تک چکوال سے ڈیرہ اسمعیل خان تقریباً چار سال سفر رہا اور ہر تین ماہ بعد میرا میانوالی اڈے پہ آکر گاڑی تبدیل کرنے کیلیے ٹہراٶ ہوتا تھا، وہاں لالہ لیاقت سے بھی ملاقات ہو جاتی تھی۔ اس وقت سیل فون کا دور نہیں تھا خط و کتابت ہوتی تھی۔ لالہ لیاقت نہایت ملنسار محبت بھرے انسان ہیں۔ سرائیکی گلوکاروں کو متعارف کروانے اور ان کی کیسٹ ریلیز کروانے میں ان کا بہت کردار رہا ہے۔ لالہ لیاقت اب بلڈنگ میٹریل کا بزنس کرتے ہیں اور ان کے بیٹے محمد ساجد ان کے ولی عہد ہیں جو کاروبار میں ان کی معاونت اور کاروباری سرگرمیاں دیکھتے ہیں۔
لالہ لیاقت کیلیے اسی البم سے افضل عاجز کا ایک شعر !!
چڑھیاں کمانڑاں ھونی پِڑ دی نہ ہار آوی!
سرداراں وچ گنڑیویں قدماں تے لوک ڈھاو
سوہنڑاں دا لاڑا ھونویں سارا جگ ہووی سباہلہ ۔۔!!!
لالہ لیاقت اور ساجد علی خان کی پکچر پہلے کمنٹ میں موجود ھے ٫!!
امید ھے احباب کو میری آج کی کاوش پسند آۓ گی ۔
سلامتی کی دعائیں آپ سب کے نام !!!
|