|
سُر کا سفر!!!!
نومبر 1979ء میں آرجی ایچ نے لالہ عیسی خیلوی کا البم نمبر 15 ریلیز کیا تھا۔ لالہ جی نے اس البم کیلیے چارخوبصورت غزلوں کا انتخاب کیا, جو اردو ادب کے نامور شعراء کا کلام تھا۔ ان غزلوں کے درمیان لالہ جی نے سرائیکی دوہڑے بھی شامل کیے۔
میں اس البم کو لالہ جی کے اردو البم میں سب سے منفرد سمجھتا ہوں۔
میں اس البم کی چاروں غزلوں کا مکمل خلاصہ پیش کرونگا۔
1. سرجھکایا تو پتھر صنم بن گئے عشق بھٹکا تو حق آشنا ہو گیا
2. جسے چاہے شیشہ دے دے جسے چاہے جام دے دے
3.جہاں مجھ سے دل میرا چھینا گیا ہے وہیں پہ اکثر بُلایا گیا ہوں
4.مجھے موت دی کہ حیات دی یہ نہیں سوال کہ کیا دیا
ان چاروں غزلوں کو ناصرف لالہ جی نے خود کمپوز کیا اور ان کے انتخاب میں جناب عتیل عیسی خیلوی نے لالہ کی رہنمائی بھی کی اور کمپوزنگ بھی کی۔ اردو ادب کے نامور شعراء ظفر گورکھپوری, صادق دہلوی اور نسیم امروہوی کی لکھی ہوئی غزلیں تھیں، جن کے درمیان لالہ جی نے جگر مراد آبادی، تابش دہلوی، حسرت جے پوری اور امر چند قیس جالندھری کے قطعات اور اشعار بھی گائے۔ اردو غزل کیساتھ سرائیکی دوہڑے شامل کرنے کی بدعت بھی لالہ جی کی ایجاد تھی، شاید یہ سننے والوں کی پسندیدگی کی وجہ تھی کہ لالہ سرائیکی دوہڑے سے اردو غزل کے اشعار کا مفہوم واضح کر دیتے تھے۔
لالہ کو شہرت کی بلندی پہ پہنچانے والے مشہور زمانہ آرجی ایچ والیم نمبر 4 میں بھی لالہ نے اردو غزلوں کے درمیان ابراہیم غریب، مجبور عیسی خیلوی، ملک آڈھا خان اور وارث شاہ کے دوہڑے گائے جسے بہت پسند کیا گیا۔ سر منور علی ملک نے شاید اسی تناظر میں ”اک خوبرو جوان“ لکھا تھا جس کے اردو قطعات کیساتھ سرائیکی ماہیہ تھا جو بہت مقبول ہوا۔
اور سدا بہار غزل ”ادھر زندگی کا جنازہ اُٹھے گا“ کی ابتداء بھی حضرت خواجہ غلام فرید کے دوہڑے سے ہوتی ہے۔ یہی آگے چل کے والیم نمبر 12 ,11 اور 13 میں بھی ہے، جہاں اردو غزل کیساتھ سرائیکی دوہڑے اور اردو قطعات بھی لالہ نے گائے اور انہیں بہت پذیرائی ملی۔
ان چار غزلوں میں شعر کی مناسبت سے شفقت بزدار، اقبال کوچوان اور ملک سونا خان بےوس کے دوہڑے شامل کیے گئے۔ کیسٹ کی اے سائیڈ پہ دوسری غزل انتہائی خوبصورت ہے۔ ابتداء میں حسرت جے پوری کے خوبصورت اشعار اور اس میں شفقت بزدار کا بیمثال دوہڑہ!!
پُرکشش ایہہ نین تے جام نوں توں کدی تول ڈیکھاں کے بنڑداۓ
کتھے اَبر سیاہ کتھے زُلف تیڈی لٹ کھول تاں سہی ڈیکھاں کے بنڑداۓ
کر قید بہار نوں گیسوٶاں وچ ذرا رول تاں سہی ڈیکھاں کے بنڑداۓ
شفقت دے سنگ کئیں رنگ دے وچ چن بول تاں سہی ڈیکھاں کے بنڑداۓ
چوتھی غزل ”مجھے موت دی کہ حیات دی“ کے ابتداء میں ملک سونا خان بےوس کے دوہڑے کا انداز تو دیکھیئے ۔۔۔
لڑ لگیاں نوں ۔۔۔۔۔
اور!!!!!!
تیتھوں نکھڑ کے بےوس مرویسی ۔۔۔۔
آہ!! لالہ کا سوز میں ڈوبا جگر شگاف انداز ۔۔۔
واللہ !!! کبھی آپ اپنے بستر پہ پرسکون لیٹ کر درمیانی رات میں دھیمی آواز کیساتھ یہ غزل سنیں تو یقیناً دو قطرے آپ کی آنکھوں سے نکل کر آپکے رخسار پہ آگریں گے ۔۔
اور جب آپ یہ شعر سنیں گے !!!
میری خاک کچھ تو تبرکن تیری بزمِ ناز میں بٹ گئی
جو غبار تھوڑا سا تھا بچا اُسے آندھیوں نے اُڑا دیا
آپ کے جسم میں سنساہٹ پیدا ہو جاۓ گی ۔اور دل بھر آۓ گا۔
اسی غزل کا مقطع !!!!
کسے دیں وفا کی سند ظفر لکھے جارہے تھے وہ نام جب
یہ حسین ایسے تھے سنگدل میرا نام لکھ کے مِٹا دیا
کیا خوبصورت شاعری کا انتخاب ہے۔۔
اس اردو البم کی مدھر موسیقی کیساتھ لالہ کی درد بھری آواز لازوال شاعری نے لالہ کی اس کیسٹ کو اردو البمز میں سب سے ممتاز کیا ہے۔
شہنائی، طبلہ، ڈھولک، چھوٹا ردھم (چھنکنہ) ستار اور ہارمونیم کیساتھ سُریلے سُر بکھیرے ہیں۔
لالہ نے کسی کی شاگردی اختیار نہیں کی تھی ۔انہیں صرف امتیاز خالق ہارمونیم بجانا سکھایا۔ وہ اپنے گیتوں غزلوں کی دُھنیں خود بناتے تھے، اور خود میوزک ترتیب دیتے تھے۔ لالہ کی آواز بھارت، بنگلہ دیش، مشرق وسطی اور یورپ تک پھیل چکی تھی۔ وہ پہلی غزل سے مشہور ہوئے تھے۔ جس میں رحمت صاحب اور محمود ریکارڈسٹ کی کاوش شامل تھی۔ اور رحمت گراموفون کا کاروبار بھی چمک اٹھا تھا ۔
لالہ اس البم تک اردو سرائیکی پنجابی زبان میں گا چکے تھے۔ لالہ لوک گیتوں کے علاوہ غزل، گیت، کافی، نظم، دوہڑہ، قطعات گا چکے تھے اور ان کی کامیابی کے پیچھے ان کی محنت لگن اور جذبہ تھا ۔
امید ھے دوستوں کو آج کی تحریر بھی پسند آئے گی!!! احباب کی محبتوں کا بیحد مشکور و ممنون ہوں۔
|