سُر کو جب آواز ملتی ھے تو وُہی عطاءالله بن جاتا ہے۔
جولائی 1984 میں ناروے پروگرام کے کچھ ہی دن بعد اگست 1984 میں لالہ جی کا ایک سپرہٹ البم ریلیز ہوا۔ جس نے لالہ جی کو مزید شہرت کی بلندیوں تک پہنچا دیا۔ لالہ جی نے اس البم کے چھ خوبصورت گیتوں کی کمپوزیشن خود ھی کی۔ پی ایم سی اس وقت نئی نئی وجود میں آئی تھی۔ یہ کمپنی اس وقت بھارتی فلموں اور گلوکاروں کے کیسٹ ریلیز کیا کرتی تھی۔ تب ہی پی ایم سی نے لالہ جی کا یہ البم ریلیز کیا۔ جو بہت منافع بخش ثابت ہوا۔ کیسٹ جب مارکیٹ میں آیا تو بسوں ویگنوں چھپر نما ھوٹلوں دھواں خارج کرتی فیکٹریوں اور ملوں میں یہی البم سنائی دیتا تھا۔
لوک گیتوں کے بحرالکاھل مجبور عیسیٰ خیلوی، مصور غم ملک سونا خان بیوس، باباۓ تھل فاروق روکھڑی کے دو دو گیت اپنی مثال آپ ھیں۔ سونے پہ سہاگہ مصور غم کے درد بھرے دوھڑے مدھر پرسوز موسیقی اور لالہ جی کی درد بھری آواز کا جادو سر چڑھ کے بولا۔ جس نے بھی یہ البم سنا لالہ کا دیوانہ ہو گیا۔
پی ایم سی نے اس البم کے اب تک تین مختلف کیسٹ کور بناۓ ھیں۔ ابتدائی کور میں لالہ جی کی اس وقت کی تصویر کے ساتھ سادہ سا کور تھا۔ بعد میں پی ایم سی 61 کی تصویر لگا کے ”کرگئی کرگئی جادو کرگئی“ ٹائٹل دیا۔ تیسری بار لالہ جی کی ”البم 111 ھیرا“ والی تصویر کے ساتھ فلمسٹار ثناء کی تصویر بھی لگائی۔
شروع کی ریکارڈنگ کو دوسری بار گیتوں کے ابتداء میں سمندری لہروں کا شور بھی شامل کیا گیا۔ جسے بہت پسند کیا گیا۔ اس البم کے سب گیت لالہ جی نے بہت ساری محفلوں اور شوز میں متعدد بار گایا ۔
لالہ جی کے والد محترم جناب بابا احمد خان نیازی مرحوم بھی اس البم کو لالہ جی کی غیر موجودگی میں سنتے تھے۔ خصوصاً باباۓ تھل کا گیت ”کنڈیاں تے ٹُرکے آۓ“۔
اس البم میں مجبور صاحب کی سوھنڑی صورت یار والی نے بہت جادو کیا۔ بیوس صاحب کا ”بہوں تڑپایا ای ڈھول ناداناں“ نے بھی بہت سے دلوں کا درد سمیٹا۔ باباۓ تھل کے کنڈیاں تے ٹر کے آۓ۔ میں دو انترے میرے دل کی آواز بن گۓ۔
ساڈے نال زندگی نے کیتے عجب تماشے
ساڈے دل دا چین لٹیا اساں ٹردے پھردے لاشے
تینوں مرض کہڑا دسئیے جد سڑ گیا نصیبا
ساڈا سینہ زخمی زخمی توں ویکھ لے طبیبا
لیکن ۔۔۔ مصور غم نے بھی کیا خوب کہا۔
ھس ھس جگر دا خون پلاساں حسن دیاں سرکاراں نوں ۔
لالہ جی کے ہر فین ہر مداح کو یہ البم آج بھی بہت پسند ھے۔ لالہ جی کا یہ البم ہمیشہ امر اور سدا بہار رہے گا۔
When melody finds its voice, that’s when it becomes Attaullah.
In July 1984, just a few days after his program in Norway, one of Lala Ji’s superhit albums was released in August 1984. This album took Lala Ji to even greater heights of fame. He composed all six beautiful songs of the album himself. At that time, PMC (Pakistan Music Company) had just been established. It primarily released cassettes of Indian films and singers. Around that time, PMC released this album by Lala Ji — and it turned out to be highly profitable. Once the cassette hit the market, it could be heard everywhere — in buses, wagons, roadside dhaba-style hotels, smoke-filled factories, and mills.
انگریزی ترجمے کا ماخذ: چیٹ جی پی ٹی - English Translation Source ChatGPT
|